عثمان سے بغض اللہ سے بغض

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت (ص) کے پاس ایک شخص کا جنازہ لایا گیا تو آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ (ص) ! ہم نے آپ (ص) کو اس سے پہلے کسی کی نماز جنازہ ترک کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ فرمایا: یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا لہٰذا اللہ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں۔۔۔۔۔

علامہ ناصر الدین البانی نے اسے موضوع حدیث قرار دیا ہے۔


یا اللہ اسلام کو ابوجہل یا عمر کے اسلام سے تقویت پہنچا

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ یا اللہ اسلام کو ابوجہل یا عمر کے اسلام سے تقویت پہنچا۔ چنانچہ صبح عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خاضر ہوئے اور اسلام لائے۔

اس حدیث کو علامہ ناصر الدین البانی نے ضعیف جداً یعنی “شدید ترین ضعیف“ کہا ہے اور امام ترمذی نے اس کو غریب کہا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں ایک راوی نضر ابی عمر پر بعض محدثین نے اعتراض کیا ہے کہ یہ منکر احادیث روایت کرتا ہے۔


روایات در شان خلفائے ثلاثہ

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے حق تعالٰی جس سے مصافحہ فرمائیں گے وہ عمر ہیں اور وہ سب سے پہلے شخص ہیں جن کو حق تعالٰی سلام فرمائیں گے اور سب سے پہلے شخص جن کے ہاتھ کو حق تعالٰی پکڑیں گے اور جنت میں داخل فرمائیں گے۔

اس حدیث کو علامہ ناصر الدین البانی نے “شدید منکر“ اور ضعیف قرار دیا ہے


وہابیوں کا قرآن بکری کھا گی

ام المومنین عائشہ سے روایت ہے رجم کی آیت اتری اور برے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی اور یہ دونوں آیتیں ایک کاغز پر لکھی تھیں میرے تخت کے تلے جب آنحضرت( ص) کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی وفات میں مشغول تھے اور گھر کی پلی ہوئی بکری آئی اور وہ کاغز کھا گئی
(سنن ابن ماجہ شریف جلد2 کتاب النکاح)
یہ روایت بالکل استدلال کے قابل ہے کیونکہ ابن اسحاق نے حدثنی کہ کر سماع کی تصریح کر دی ہے
(مسند احمد بن حنبل ، ج 43،ص342)
واضح رہے کہ یہ روایت جس میں ابن اسحاق کی سماع کی تصریح موجود ہے،وہ مسند احمد میں مروی ہے
اب ہم آتے ہیں ،محمد بن اسحاق کی طرف،ابن اسحاق اھل سنت اور اھل حدیث علمائے کے نزدیک ثقہ ہیں .ہم یہاں صرف ایک ایسے بندے کی تو ثیق پیش کریں گے ،ابن اسحاق کے متعلق ،جس کو سلفی حضرات رد نہیں کر سکیں گے .
حافظ ابن تیمیہ ،ابن اسحاق کے متعلق بیان کرتا ہے کہہ:
"اور ابن اسحاق جب حدثنی کہیں تو وہ اھل حدیث کے نزدیک ثقہ ہیں اور ابن اسحاق کی بیان کر دہ یہ سند جید (اچھی) ہے ."
(مجموع فتاوٰٰی ،ج 33،ص 85)
منددرجہ بالا روایت مندرجہ ذیل کتب اھل سنت میں بھی موجود ہے
مسند ابو یعلیٰٰ ،ج 8،ص 64، مسندابو یعلی ٰ کے محقق نے کہا ہے کہ یہ روایت مسند احمد میں اسناد صحیح کے ساتھ بھی موجود ہے
تاویل مختلف الحدیث ،ص 210
سنن دارقطنی ، ج 5،ص 316
ابن حزم نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے جسمیں بکری نے قرآن کھانے کا ذکر ہے
حوالہ: المحلی، جلد 11، صفحہ 235-236، طبع مصر
سب سے زیادہ مضحکہ خیز بات قرطبی (سنی مفسر) نے کہا جس کی بات کو آج کل کے غیر شیعہ دھراتے ہیں
قرطبی فرماتے ہیں:
وأما ما يحكى من أن تلك الزيادة كانت في صحيفة في بيت عائشة فأكلتها الداجن فمن تأليف الملاحدة والروافض
اور جو یہ حکایت (روایت) بیان کی جاتی ہے کہ رجم کی آیت ایک صحیفے میں تھی جو جناب عائشہ کے گھر میں تھا جسکو بالآخر بکری گھا گئی. یہ ملحد اور روافض (شیعوں) کی اختراع ہے
کیا فرمائیں گے قرطبی ابن ماجہ، احمد ابن حنبل، ابویعلیٰ، ابن حزم، طبرانی، دارالقطنی کے بارے میں؛؛؛
کیا یہ سارے ملحد اور شیعہ تھے؛؛؛
قرطبی والی بات ، علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں بھی کہی ہے یعنی
یہ (بکری والی روایت) روایت ملحدوں اور روافض کی گھڑی ہوئی باتوں میں سے ہے
تفسیر کشاف // زمخشری//ج 5//ص 42//سورۃ احزاب//طبع ریاض
حالانکہ شیعہ علماء نے نہ اس روایت کو نقل کیا اور نہ ہی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے
مگر تفسیر کشاف کے حاشیہ پر اھل سنت کے ہی محقق علماء نے زمخشری کی اس بات کا رد کیا ہے ،محقق کتاب لکھتا ہے کہ
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب "تخریج احادیث فی الکشاف " میں کہا ہے کہ "بلکہ اس روایت کے رواۃ ثقہ ہیں اور غیر مہتم ہیں " یعنی ان پر جرح نہیں ہے
ہم نے یہ آیئنہ دکھا ہے تم لوگوں کو کے اصل مے کس کی بکر ی نے قرآن کھایا تھا ناصبی حضرات ہم پر طعن کرتے ہیں کہ کہ شیعوں کا قرآن تو بکری کھاگی تھی تو ہم نے اس تھریڈ میں ثابت کیا ہے لہذا بکری تو کھاگی تھی تبی تو ابھی تک تم لوگوں کو آیت رجم ہی نہں ملی اور تم کہہ رہے ہو وہ آیت کو اور جگہ اور کی لوگوں نے حفظ بھی کی تھی تو ہمئں دکھائیے گا ضرور ویسے میں نے سن رکھا ہے آیت رجم کی منسوخ ہونے کی روایتب بھی نہں ہے اور میاں عمر صاحب تو کہتے تھے کہ یہ آیات موجود تھی پہلے اگر یہ اندیشہ نہ ہو کہ عمر نے کتاب میں خدا میں زیادتی کردی تو میں اپنے ہاتھ سے آیت رجم لکھ دیتا (بخاری ج4)
شیعہ امامیہ کا قرآن کے متعلق جو عقئدہ ہے وہ مئں مختصر بیان کرتا ہوں
ہم قرآن کو آخری مقدس الہامی اور منزل من اللہ کتاب اور اس کے ہر حکم کو واجب العمل جانتے ہیی اور اس کو تمام عالمین کے لئے رشد و ہدایت کے لئے بے عیب دستور العمل تسلیم کرتے ہیں اور حق اور باطل میں تمیز کا واحد معیار مانتے ہیں شیعہ اسی قرآن کو پرھتے ہیں اور پرھتے ہیں اور اس کے اکرام و احترام کو لازم سمجتے ہیں
ہمارئے شیعہ علما بھی قرآن کی صحت کے قائل ہئیں اور اسی قرآن کو مکمل قرآن تسلیم کرتے ہیں جئساکہ رئیس المعدثین جناب شیخ صدوق اپنے رسلہ اعتقاددیہ میں فرماتے ہئں ہمارا عقیدہ قرآن مجیدکے متعلق یہ ہے کہ وہ قرآن خدواند عالم نے اپنے نبی پرنازل فرمایا تھا وہی ہے جو دفتین کے درمیان لوگوں کے پاس موجود ہے اس سے زیادہ نہیں ہے اور جوشخص ہماری طرف سے یہ نسبت دیتا ہے کہ ہم اس سے زیادہ کے قائل ہیں وہ جھو ٹا ہے
ایسا ہی عقئدہ ہمارئے دیگر علما ( سیدمرتضی ،علامہ شیخ طوسی، علامہ طبرسی ،علامہ حامد حسینی، علامہ بلاغی ،علامہ حائری،علامہ خوی وغیرہ وغیرہ) نے بھی اسی چیز کا اقرار کیا ہے ہاں البتہ ہم اتنا ضرور کہتے ہیں کہ اس قرآن کی ترتیب اس کے نزول کے مطابق نہیں اور بعض سوروں کی بعض آیات دوسروے بعض سوروں میں درج ہوگی ہیں اور یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے جسکا مخلفین نے بھی اقرار کیاہے اور جب تم کوئی روایت تنقدن پیش کروں گئے تو ہم اسکی تاوئل ضرور دئے گئے اور یہ بھی دکھائے گے اہلسنت میں بھی تحریف قرآن پر روایت موجود ہے
امام صادق علیہ السلام نے ھشام کے لیا کہا تھا هذا ناصرنا بقلبه و لسانه و يده- میری دعا ہے آپ لوگ بھی مولا کے اس کلام کے مصداق ہو آمین

امام بخاری کا طریقہ انتخاب احادیث

امام بخاری سے منقول ہے:

میں چھ لاکھ حدیثوں سے انتخاب کر کے اپنی صحیح میں احادیث درج کی ہیں اور اس کتاب کو اپنے اور خدا کے درمیاں حجت قرار دیا ہے ۔ (۱)

فربری نے امام بخاری سے اس طرح نقل کیا ہے :
’’ما کتبت فی کتاب الصحیح حدیثا الا اغتسلت قبل ذالک و صلیت رکعتین ‘‘ (۲)
’’ میں ہر حدیث کو کتاب میں تحریر کرنے سے قبل غسل کیا اور دو رکعت ادا کر کے استخارہ کیا اور جب حدیث کی صحت استخارے کے ذریعے میرے نزدیک ثابت ہو گئی تب میں نے حدیث کو اپنی کتاب میں درج کیا ۔ ‘‘

نقد مترجم :
امام بخاری نے صحیح بخاری کی تالیف میں (۱۶) سال صرف کئے ، جیسا کہ خطیب بغدادی نے بخاری سے نقل کیا ہے : میں نے اس کتاب کو سولہ (۱۶) سال میں تالیف کیا .

تاریخ بغداد ج ۲ ، بیان حالات محمد ابن اسماعیل ، ص ۱۴ .

امام بخاری کے مذکورہ قول کے مطابق چھ لاکھ حدیثوں میں سے تقریبا سات ہزار حدیثوں پر استخارہ آیا اور بقیہ پر استخارہ نہ آیا ، ذرا ہم تحقیق کر کے اس بات کو دیکھتے ہیں آیا یہ عمل ممکن ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ !
واضح رہے کہ امام بخاری نے ہر حدیث پر ایک مرتبہ استخارہ ، غسل اور دو رکعت نماز انجام دی ، پس کمترین مدت اگر ایک حدیث پر صرف کی جائے تو بیس (۲۰) منٹ ہوں گے ، گویا تین حدیثوں پر کم سے کم ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے ، اگر چھ لاکھ حدیثوں پر اس عمل کو انجام دیا جائے تو تقریبا دو لاکھ گھنٹوں کی ضرورت ہوگی ، جس کا حساب اس طرح ہوگا :
۱ ۔ امام بخاری نے دن و رات حدیث جمع کرنے کے لیے ۴ / گھنٹے کام کیا تو چھ لاکھ حدیثوں کے لئے ۱۳۷ / سال در کار ہوں گے .
۲ ۔ اگر امام بخاری نے روزانہ ۸ / گھنٹے صرف کئے تو تقریبا ساڑھے ارسٹھ (۵/۶۸) سال درکار ہوں گے ۔
۳ ۔ اگر بارہ گھنٹے صرف کئے تو ۴۶ / سال لازم ہوں گے ۔
۴ ۔ اگر ۱۶ / گھنٹے روزانہ استعمال میں لائے تو ۳۴ / سال ضروری ہوں گے ۔
۵ ۔ اگر بیس گھنٹے کام کریں تو ۲۷/ سال در کار ہوں گے ۔
۶ ۔ اگر ۲۴ / گھنٹے کام کریں تو ۲۳ / سال در کار ہوں گے ۔
لیکن لا ینحل معمہ یہاں یہ ہے کہ بخاری نے دس سال کی عمر سے تعلیم دین حاصل کرنا شروع کی اور جب بیس سال کے ہوئے تو علوم دینیہ کے حصول کے لئے گھر سے باہر نکلے اور عمر کے ۲۹ ویں سال سے ان چھ لاکھ حدیثوں پر تحقیقی کام کرنا شروع کیا اور کلی طور پر ۶۲ / سال عمر پائی ، پس اگر ہم ۶۲/ سے ۲۹ /کم کر دیں تو امام بخاری نے ۳۳ سال اس کام (احادیث جمع کر کے ان کی تحقیق) میں صرف کئے اور اگر ایک سال اور بڑھا لیں تو ۳۴/ سال ہوتے ہیں ، اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے بخاری کا یہ کہنا : ’’ میں نے صرف ۱۶/ سال ان حدیثوں پر کام کیا ‘‘ کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ ! بہر حال اگر ہم ۱۶/ سال کی مدت سے قطع نظر کریں تو آپ کی عمر اس کام کو کرنے کے لئے ۱۳۷/ سال ہونی چاہئے اور دوسرے اور تیسرے فارمولے کے مطابق ۵/۶۸ یا ۴۶/ سال ہونا چاہئے اور اگر روزانہ ۱۶ گھنٹے کام کیا ، تو پھر آپ کی تعلیمی عمر کے برابر سال ہونا چاہئے ۳۴/ سال یعنی اگر آپ روزانہ ۱۶/ گھنٹے حدیث پر کام کریں تو پھر روزانہ آپ کو ۴۸ حدیثوں پر کام کرنا ہوگا ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی انسان یہ یقین کر سکتا ہے کہ ایک شخص ۲۴/ گھنٹوں میں ۴۸/ مرتبہ غسل کرے ؟! اور ہر غسل کے بعد دو رکعت نامز اور استخارہ انجام دے ؟! یعنی روزانہ ۱۹۶/ رکعت نمازیں پڑھے ؟ اور اگر غسل کو وضو کے لئے کافی نہ جانیں تو وضو بھی ۴۸/ مرتبہ نماز کے لئے انجام دینا ہوگا اور پھر اس کے علاوہ آٹھ گھنٹوں میں کھانا ، پینا ، رفع حاجت اور بقیہ نماز پنجگانہ مع فرض و نوافل جو تقریبا ۵۱/ رکعت ہوتی ہے اور ان نمازوں کے لئے وضو وغیرہ انجام دینا اوپ پھر ان ہی آٹھ گھنٹوں میں سونا اور ہر ماہ نماز جمعہ بھی ۴ مرتبہ آتی ہے اور ہر سال نماز عید کا اضافہ ہو جاتا ہے اور کسی غرض کے تحت سفر بھی کرنا ، باہر سے کھانے پینے کا سامان بھی مہیا کرنا ، بال بچوں سے بھی محو گفتگو ہونا اور دیگر لوگوں کے دینی مسائل بھی حل کرنا ، درس و تدریس کا سلسلہ بھی برقرار رکھنا اور پڑھانے کے لئے پیشگی مطالعہ کرنا اور زوجہ کو خاص وقت بھی دینا وغیرہ وغیرہ .
گزارش : یہاں پر ہم ارباب عقل و دانش سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا ایک انسان ۳۴/ سال تک مسلسل روزانہ مذکورہ عمل انجام ( ۴۸/ مرتبہ نماز و غسل اور ۴۸/ مرتبہ استخارہ وغیرہ وغیرہ ) دے سکتا ہے ؟ حقیقت تو یہ کہ ۸/ گھنٹے صرف بناز یومیہ کے لئے درکار ہوتے ہیں ، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری کے زمانے میں دن ۴۸/ گھنٹے کا تھا ؟!

جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی اور اگر اس حساب سے ایک لمحہ کے لئے ہم چشم پوشی کر لیں تب بھی بخاری کا یہ طریقہ انتخاب ِ حدیث علم درایت و روایت کے خلاف ہے ، کیونکہ روایت قبول کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے احوال رُواۃ کو دیکھا جائے کہ وہ کیسا تھا ، صادق تھا یا کاذب ، ذہین تھا یا کند ذہن ، امین تھا یا خائن مجہول الحال تھا یا غیر مجہول وغیرہ وغیرہ اور اس کے بعد تمام سلسلہ سند و روایت کو دیکھا جاتا ہے ، آیا روایت مقطوع تو نہیں ہے ، سلسلہ سند درمیان سے محذوف تو نہیں ، ان تمام مراحل کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ یہ روایت قرآن حدیث کے خلاف تو نہیں ، اگر مخالف ہے تو دہوار پر دے ماریں ، ان تمام اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر امام بخاری کو نہ جانے کیا سوجھی کہ غسل کر کر کے نمازیں پڑھ پڑھ کے استخارہ کے ذریعہ روایت اخذ کیں ؟!!! جی اگر ہر مسئلہ میں قوانین و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر استخارہ ہی کیا جائے تو پھر سلسلہ سند روایت تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اجتہاد کا کیا کام ؟ تب تو آپ استخارہ دیکھتے جایئے اور عمل کرتے جایئے ، اگر یہی بات مان لی جائے تو میرا مشورہ یہ ہے کہ صحیح بخاری پر پھر ایک تجدید استخارہ ہوجائے ، پھر دیکھئے کتنی روایتیں حذف ہوتی ہیں.
-------------------------------------------
حوالاجات:
  1. مقدمہ فتح الباری (ھدی الساری) فصل اول ، ص ۵ ، مقدمہ ارشاد الساری ، کشف الظنون .
  2. مقدمہ فتح الباری ، ٖفصل اول ، ارشاد الساری ، کشف الظنون ، الفصل الرابع فیما یتعلق بخاری و جعلتہ حجۃ فیما ینی و بین اللہ ص ۲۹ .