Imam bukhari ka tariqa intikhab ahadees


امام بخاری کا طریقہ انتخاب احادیث

امام بخاری سے منقول ہے : میں چھ لاکھ حدیثوں سے انتخاب کر کے اپنی صحیح میں احادیث درج کی ہیں اور اس کتاب کو اپنے اور خدا کے درمیاں حجت قرار دیا ہے ۔ (۱)
فربری نے امام بخاری سے اس طرح نقل کیا ہے :
’’ما کتبت فی کتاب الصحیح حدیثا الا اغتسلت قبل ذالک و صلیت رکعتین ‘‘ (۲)’’ میں ہر حدیث کو کتاب میں تحریر کرنے سے قبل غسل کیا اور دو رکعت ادا کر کے استخارہ کیا اور جب حدیث
کی صحت استخارے کے ذریعے میرے نزدیک ثابت ہو گئی تب میں نے حدیث کو اپنی کتاب میں درج کیا ۔ ‘‘


امام بخاری نے صحیح بخاری کی تالیف میں (۱۶) سال صرف کئے ، جیسا کہ خطیب بغدادی نے بخاری سے نقل کیا ہے : میں نے اس کتاب کو سولہ (۱۶) سال میں تالیف کیا

.
تاریخ بغداد ج ۲ ، بیان حالات محمد ابن اسماعیل ، ص ۱۴ .

امام بخاری کے مذکورہ قول کے مطابق چھ لاکھ حدیثوں میں سے تقریبا سات ہزار حدیثوں پر استخارہ آیا اور بقیہ پر استخارہ نہ آیا ، ذرا ہم تحقیق کر کے اس بات کو دیکھتے ہیں آیا یہ عمل ممکن ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ !

واضح رہے کہ امام بخاری نے ہر حدیث پر ایک مرتبہ استخارہ ، غسل اور دو رکعت نماز انجام دی ، پس کمترین مدت اگر ایک حدیث پر صرف کی جائے تو بیس (۲۰) منٹ ہوں گے ، گویا تین حدیثوں پر کم سے کم ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے ، اگر چھ لاکھ حدیثوں پر اس عمل کو انجام دیا جائے تو تقریبا دو لاکھ گھنٹوں کی ضرورت ہوگی ، جس کا حساب اس طرح ہوگا :

۱ ۔ امام بخاری نے دن و رات حدیث جمع کرنے کے لیے ۴ / گھنٹے کام کیا تو چھ لاکھ حدیثوں کے لئے ۱۳۷ / سال در کار ہوں گے .

۲ ۔ اگر امام بخاری نے روزانہ ۸ / گھنٹے صرف کئے تو تقریبا ساڑھے ارسٹھ (۵/۶۸) سال درکار ہوں گے ۔

۳ ۔ اگر بارہ گھنٹے صرف کئے تو ۴۶ / سال لازم ہوں گے ۔

۴ ۔ اگر ۱۶ / گھنٹے روزانہ استعمال میں لائے تو ۳۴ / سال ضروری ہوں گے ۔

۵ ۔ اگر بیس گھنٹے کام کریں تو ۲۷/ سال در کار ہوں گے ۔

۶ ۔ اگر ۲۴ / گھنٹے کام کریں تو ۲۳ / سال در کار ہوں گے ۔

لیکن لا ینحل معمہ یہاں یہ ہے کہ بخاری نے دس سال کی عمر سے تعلیم دین حاصل کرنا شروع کی اور جب بیس سال کے ہوئے تو علوم دینیہ کے حصول کے لئے گھر سے باہر نکلے اور عمر کے ۲۹ ویں سال سے ان چھ لاکھ حدیثوں پر تحقیقی کام کرنا شروع کیا اور کلی طور پر ۶۲ / سال عمر پائی ، پس اگر ہم ۶۲/ سے ۲۹ /کم کر دیں تو امام بخاری نے ۳۳ سال اس کام (احادیث جمع کر کے ان کی تحقیق) میں صرف کئے اور اگر ایک سال اور بڑھا لیں تو ۳۴/ سال ہوتے ہیں ، اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے بخاری کا یہ کہنا : ’’ میں نے صرف ۱۶/ سال ان حدیثوں پر کام کیا ‘‘ کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ ! بہر حال اگر ہم ۱۶/ سال کی مدت سے قطع نظر کریں تو آپ کی عمر اس کام کو کرنے کے لئے ۱۳۷/ سال ہونی چاہئے اور دوسرے اور تیسرے فارمولے کے مطابق ۵/۶۸ یا ۴۶/ سال ہونا چاہئے اور اگر روزانہ ۱۶ گھنٹے کام کیا ، تو پھر آپ کی تعلیمی عمر کے برابر سال ہونا چاہئے ۳۴/ سال یعنی اگر آپ روزانہ ۱۶/ گھنٹے حدیث پر کام کریں تو پھر روزانہ آپ کو ۴۸ حدیثوں پر کام کرنا ہوگا ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی انسان یہ یقین کر سکتا ہے کہ ایک شخص ۲۴/ گھنٹوں میں ۴۸/ مرتبہ غسل کرے ؟! اور ہر غسل کے بعد دو رکعت نامز اور استخارہ انجام دے ؟! یعنی روزانہ ۱۹۶/ رکعت نمازیں پڑھے ؟ اور اگر غسل کو وضو کے لئے کافی نہ جانیں تو وضو بھی ۴۸/ مرتبہ نماز کے لئے انجام دینا ہوگا اور پھر اس کے علاوہ آٹھ گھنٹوں میں کھانا ، پینا ، رفع حاجت اور بقیہ نماز پنجگانہ مع فرض و نوافل جو تقریبا ۵۱/ رکعت ہوتی ہے اور ان نمازوں کے لئے وضو وغیرہ انجام دینا اوپ پھر ان ہی آٹھ گھنٹوں میں سونا اور ہر ماہ نماز جمعہ بھی ۴ مرتبہ آتی ہے اور ہر سال نماز عید کا اضافہ ہو جاتا ہے اور کسی غرض کے تحت سفر بھی کرنا ، باہر سے کھانے پینے کا سامان بھی مہیا کرنا ، بال بچوں سے بھی محو گفتگو ہونا اور دیگر لوگوں کے دینی مسائل بھی حل کرنا ، درس و تدریس کا سلسلہ بھی برقرار رکھنا اور پڑھانے کے لئے پیشگی مطالعہ کرنا اور زوجہ کو خاص وقت بھی دینا وغیرہ وغیرہ .

گزارش : یہاں پر ہم ارباب عقل و دانش سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا ایک انسان ۳۴/ سال تک مسلسل روزانہ مذکورہ عمل انجام ( ۴۸/ مرتبہ نماز و غسل اور ۴۸/ مرتبہ استخارہ وغیرہ وغیرہ ) دے سکتا ہے ؟ حقیقت تو یہ کہ ۸/ گھنٹے صرف بناز یومیہ کے لئے درکار ہوتے ہیں ، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری کے زمانے میں دن ۴۸/ گھنٹے کا تھا ؟!
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
اور اگر اس حساب سے ایک لمحہ کے لئے ہم چشم پوشی کر لیں تب بھی بخاری کا یہ طریقہ انتخاب ِ حدیث علم درایت و روایت کے خلاف ہے ، کیونکہ روایت قبول کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے احوال رُواۃ کو دیکھا جائے کہ وہ کیسا تھا ، صادق تھا یا کاذب ، ذہین تھا یا کند ذہن ، امین تھا یا خائن مجہول الحال تھا یا غیر مجہول وغیرہ وغیرہ اور اس کے بعد تمام سلسلہ سند و روایت کو دیکھا جاتا ہے ، آیا روایت مقطوع تو نہیں ہے ، سلسلہ سند درمیان سے محذوف تو نہیں ، ان تمام مراحل کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ یہ روایت قرآن حدیث کے خلاف تو نہیں ، اگر مخالف ہے تو دہوار پر دے ماریں ، ان تمام اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر امام بخاری کو نہ جانے کیا سوجھی کہ غسل کر کر کے نمازیں پڑھ پڑھ کے استخارہ کے ذریعہ روایت اخذ کیں ؟!!! جی اگر ہر مسئلہ میں قوانین و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر استخارہ ہی کیا جائے تو پھر سلسلہ سند روایت تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اجتہاد کا کیا کام ؟ تب تو آپ استخارہ دیکھتے جایئے اور عمل کرتے جایئے ، اگر یہی بات مان لی جائے تو میرا مشورہ یہ ہے کہ صحیح بخاری پر پھر ایک تجدید استخارہ ہوجائے ، پھر دیکھئے کتنی روایتیں حذف ہوتی ہیں. حوالاجات:
(1) مقدمہ فتح الباری (ھدی الساری) فصل اول ، ص ۵ ، مقدمہ ارشاد الساری ، کشف الظنون .
(2) مقدمہ فتح الباری ، ٖفصل اول ، ارشاد الساری ، کشف الظنون ، الفصل الرابع فیما یتعلق بخاری و جعلتہ حجۃ فیما ینی و بین اللہ ص ۲۹ .